Tuesday, April 20, 2021

دعا کا تذکرہ



ماہرینِ لغت کہتے ہیں کہ دعا کے معنی عبادت، ندا ، تسمیہ ، سوال ، کلام ، ترغیب اور مدد طلبی کےآتے ہیں  

دعا کے لغوی ا ور اصطلاحی معانی:
    (1) دعا کی لغوی اصلیت:دعا کا لفظ مادہ (دع و) سے ماخوذ ہے۔یہ آواز اورکلام کے ساتھ کسی چیز کی طرف مائل ہونے کا نام ہے۔ اس اصل کی بنا پر دعا کا معنی ہوگا : اللہ عز وجل کی طرف رغبت کرنا۔اس کی جمع اَدعیۃ آتی ہے اور اس کا فعل ’’دعا ، یدعو‘‘آتاہے۔اور اس سے مصدر درج ذیل پانچ صورتوں میں آتاہے۔
    ٭  اس کا مشہور مصدر (دُعاء ٌ)ہے۔
    (دُعاء ٌ)کا ہمزہ اصل میں (واؤ)ہے چنانچہ یہ دراصل (دُعاوٌ) ہے۔ اس کا اصل واوی ہے اور دلیل یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں: (دعوتُ،اَدعو)اسم الفاعل۔ اس سے (داعٍ)اور مفعول( مدعوّ ٌ) آتا ہے۔ پس ثابت ہو ا کہ (دعاء) کا ہمزہ واؤ سے تبدیل شدہ ہے۔یہ مصدر اس آیۃ کریمہ میں استعمال ہوا ہے:
     ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ  قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآء ۔
    ’’ اسی جگہ زکریا( علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، کہا : اے میرے پرورد گار!مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والاہے۔‘‘(آل عمران38)۔
     ایک دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَ ھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآء۔
    ’’ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق( علیہم السلام)عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار دعا کا سننے والاہے۔‘‘(إبراہیم39)۔
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں بھی وہ نبی کریم کی ایک دعا نقل کرتے ہیں :
    اللَّہُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِکَ مِنْ عِلْم لَا یَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یُسْمَعُ( سنن أبی داؤد)۔
    اس کے علاوہ بھی اس فعل سے مصدر کے کچھ صیغے ہیںجنہیں علمائے لغت نے بیان کیا ہے اور جنہیں فصیح عربی میں استعمال کیا جاتاہے۔
    ٭ (دَعْوٌ) ابن درید کہتے ہیں: (دَعْوٌ) ’’دَعَا یَدْعُو دَعْوًا ودُعائً‘‘سے مصدر ہے۔
    ٭ اسکاایک مصدر’’دعوَی‘‘ بھی ہے۔یہ بھی دعا کے معنی میں آتاہے۔ سیبویہ کہتے ہیں: عرب کہتے ہیں:(اللَّہُمََّّ أَشْرِکْنَا فِي دَعْوَی الْمُسْلِمِینَ)۔
    ’’اے اللہ!ہمیں مسلمانوں کی دعا میں شامل فرما۔‘‘
    اوراسی میں سے یہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
    دَعْوٰ ھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَ آخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن(یونس10)۔
    ’’ اہل جنت کی دعا جنت میں یہ ہوگی کہ اے اللہ ! تو پاک ہے، اور ان کا باہمی تحفہ سلام ہوگا اور آخری دعا یہ ہوگی کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔‘‘
    ٭ اوراگر(دَعْوۃٌ)ہو تو اس کامعنی ہے: ایک مرتبہ کی دعا۔نبی کریم کے درجِ ذیل فرمان ذی شان میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے:
    لِتَلْبِسْہَاصَاحِبَتُہَا مِنْ جَلْبَابِہَا وَلْتَشْہَدِ الْخَیْرَ وَدَعْوَۃَ الْمُسْلِمِینَ)(صحیح البخاري)۔
     ’’تمام خواتین عید کی نماز کے لیے نکلیں حتیٰ کہ جس کے پاس اوڑھنے کی چادر نہ ہو وہ بھی نکلے اور اسے کوئی دوسری خاتون اپنی چادر میں سے اڑھا دے اوروہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شرکت کریں۔‘‘
    ٭  ایک مصدر (دِعَایَۃٌ) بھی ہے۔ عرب کہتے ہیں : (دَعَادِعَایَۃً) جیسے کہا جاتاہے: (رَمیَ رِماَ یَۃً) یا جیسے (شَکَی شِکَایَۃً) اور اسی سے یہ فرمان نبوی ہے:جب آپ نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام اپنا نامہ مبارک ارسال کیا تو بسم اللہ کے بعد آپ نے لکھوایا:
    اَمَّا بعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَایَۃِ الإِسْلَامِ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَإِنَّ عَلَیْکَ إِثْمَ الأرِیسِیِّینَ)۔
    ’’امابعد! میں تمہیں اسلام کی دعوت پیش کرتاہوں ، مسلمان ہو جاؤ سلامت رہو گے ،نیز اللہ تعالیٰ تمہیں دہرا اجر عطا فرمائے گالیکن اگر تم منہ پھیرلو تو تم پر تمہار ی رعایا(کے کسانوں یا ٹیکس وصول کرنے والوں) کا بوجھ بھی ہوگا۔‘‘
    ٭  ایک مصدر اس فعل سے (دِعاوَۃٌ) بھی ہے مگر یہ شاذ اور متروک ومفقودہے۔
    (2)دعا کے لغوی معانی:
    « عبادت:نبی کریم کا یہ فرمان عالی شان اس سلسلہ میں بنیادی رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ کی زبان اقدس سے سنا:
    ’’دعا عین عبادت ہے‘‘ ۔ اس کے بعد آپ نے کلام الہٰی سے یہ آیت کریمہ پڑھی’’تیرے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے ‘‘۔
    فرمانِ سید البشر کے بعد مزید کسی بشر کے کلام کی کوئی ضرورت تو نہیں رہتی مگر اسی فرمان عالی شان کی تائید اور توضیح میں علمائے  لغت اور تفسیر کے چند اقوال بھی نقل کیے جاتے ہیں:
    معروف لغوی اور مفسرابو اسحاق زجاج اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد’’اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃ‘‘(الأعراف55)کی شرح میںلفظ’’خفیۃ‘‘کی تفسیرمیں کہتے ہیں :
    ’’اپنے دلوں میںاپنے رب کی عبادت کا اعتقاد رکھو ،کیونکہ دعا کا معنیٰ عبادت ہے۔‘‘
    مشہور لغوی امام محمد بن احمدازہری رقمطراز ہیں:
    کبھی دعا کا معنی عبادت ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ عز وجل کا یہ فرمان ذی شان ہے:
    اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ (الأعراف194)۔
    ’’ یعنی جن لوگوںکی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی تو ہیں۔‘‘
    اس کے بعد اللہ تعالیٰ کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا(الکہف14)۔ ازہری کہتے ہیں کہ سیدنا سعید بن مسیب ؓسے اس کی یہ تفسیر منقول ہے: ناممکن ہے کہ ہم اس (اللہ) کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کریں۔
    «  آواز دینا:دعاکاایک معنی ’’ندا‘‘ یعنی آواز دینا بھی ہے۔اور اسی سے کہتے ہیں ’’دَعاَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ دَعْوًی وَدُعَائً ‘‘یعنی آدمی نے آدمی کو آواز دی۔اور (دُعَاۃٌ) ایسے لوگوں کو کہا جاتاہے جو ہدایت یا گمراہی کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ اس کا واحد (دَاعٍ)آتاہے۔اور (رَجُلٌ داعِیَۃٌ)  ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو دین کی طرف یا بدعت کی طرف لوگوں کو بلائے۔اس میں (ۃ)مبالغہ کے لیے لگائی گئی ہے۔
    «  نام رکھنا:امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں : کبھی دُعا کا لفظ تسمیہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔مثلا عرب کہتے ہیں:’’ دَعَوْتُ ابْنِي زَیْدًا‘‘  یعنی میں نے اپنے بیٹے کانام زید رکھا۔قرآن مجید میں اس کی مثال درج ذیل آیت میں موجود ہے۔
    اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہ(الأحزاب5)۔
    ’’لے پالکوں کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارو ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔‘‘
    «  طلب اور سوال:امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حقیقت اورشریعت میں دعا کے معانی کسی شے کی طلب کے ہیں۔
    حافظ ابوبکر بن العربی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دعا کا معنی لغت میں اور حقیقت میں کسی چیز کی طلب ہے۔
    ان کے علاوہ دیگر بہت سے علما نے بھی دعا کے یہی معانی بیان کیے ہیں اور یہی معانی کتاب وسنت ، کلام ِصحابہ اور سلف صالحین کے کلام میں زیادہ تر استعمال ہوئے ہیں۔قرآن مجید کی جن آیات میں یہ معانی استعمال ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک درج ذیل ہے:
    وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ (الأعراف134)۔
    ’’اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے: اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کردیجیے جس کا اس نے آپ سے عہد کررکھاہے۔‘‘
    اور حدیث میں اس لفظ کا استعمال بخاری کی اُس روایت میں دیکھا جاسکتاہے کہ ہجرت کے سفر میں جب سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا پیچھا کیا اور اس کا گھوڑا سینے تک زمین میں دھنس گیاتو اس نے کہا:
    ادْعُ اللَّہَ لِي وَلَا أَضُرُّکَ، فَدَعَا لَہُ۔
    ’’میرے لیے اللہ سے دعا کیجیے، میں آپ کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کروں گا چنانچہ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔‘‘
    مگر دعا کا یہ معنی’ طلب‘  مجرد طلب نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی طلب ہے چنانچہ اگر یہ طلب ادنیٰ کی طرف سے اعلیٰ کے لیے ہو تو ’دعا‘ کہلاتی ہے لیکن اگر یہ طلب اعلیٰ کی طرف سے ادنیٰ کے لیے ہو تو ’امر‘ کہلاتی ہے اوراگر اپنے ہم مرتبہ کے لیے ہو تو’ التماس‘ کہلاتی ہے۔غرض ایک ہی لفظ کے معانی طالب اور مطلوب کے احوال کے اعتبار سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
    «   قول وکلام:دعا اور اس فعل کے دیگر مصادر گاہے بات اور کلام کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔درج ذیل آیت کریمہ اس پر شاہد ہے:
    فَمَا کَانَ دَعْوٰھُمْ اِذْ جَآئَھُمْ بَاْسُنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْن(الأعراف5)۔
    ’’اس وقت ان کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی بجز اس کے کہ واقعی ہم ظالم تھے۔‘‘
    نیز یہ ارشاد باری تعالیٰ:
     فَمَا زَالَتْ تِّلْکَ دَعْوٰھُمْ حَتّٰی جَعَلْنٰھُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ(الأنبیاء15)۔
    ’’پھر تو ان کا یہی قول رہا یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی پڑی آگ (کی طرح )کردیا۔‘‘
     مشہور عرب شاعر عنترہ کا شعر ہے:
 یَدْعُونَ عَنْتَرَ وَالرَّمَاحُ کَأَنَّہَا     
 أَشْطَانُ بِئْرٍ فِي لَبَانِ الأَدْہَمِ
    }(یدعون عنترَ)کہتے ہیں : اے عنتر! ( أشطان)شطن کی جمع ہے۔یہ کنویں کے ڈول سے باندھی جانے والی طویل رسی کو کہتے ہیں۔(لبان)سینہ اور(أدہم) گھوڑا{۔
    لوگ کہتے ہیں : اے عنتر! ایسے وقت میں جب میرے گھوڑے کے سینے کی طرف تیر کنویں کی رسیوں کی طرح مسلسل آرہے ہوتے ہیں۔
    «  ترغیب وتشویق:بہت سے اہل علم نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے۔کہ یہ لفظ کسی چیز کی ترغیب دلانے اورشوق پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔
    اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس کی مثال اس آیت کریمہ میں موجود ہے:
    وَ اللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآ ء(یونس25)۔
    ’’ اللہ سلامتی کے گھر کاتمہیںشوق دلاتا ہے اور جسے چاہتاہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دیتاہے۔‘‘
    نیز یہ آیت کریمہ بھی اسی معنی کو ظاہر کرتی ہے:
    قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ ِالَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیٓ ْ اِلَیْہِ(یوسف33)۔
    ’’ یوسف (علیہ السلام) نے کہا:اے میرے رب! جس کام کی یہ عورتیں مجھے رغبت دلا رہی ہیں ،اس سے تو مجھے جیل خانہ زیادہ پسند ہے،،۔
     «  مدد طلب کرنا: دعا کے معانی میں مدد طلب کرنے اور مشکل میں کسی کو مشکلات حل کرنے کے لیے پکارنے کا معنی بہت سے علمائے لغت اور علمائے تفسیر نے بیان کیا ہے۔
    اس کے استعمال کی مثالوںمیں اللہ رب العزت کا یہ فرمان عالی شان ہے:
     وَ ادْعُوْا شُھَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن(البقرۃ23)۔
    ’’تمہیں اختیار ہے کہ اللہ کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لواگر تم سچے ہو (تو اس جیسی ایک سورۃ بنا کر لے آؤ)۔‘‘
    ’’وَ ادْعُوْا شُھَدَآئَکُم ‘‘ یعنی اپنے معبودوں اور خداؤں سے مدد طلب کرو۔یہ اس طرح کی بات ہے جیسے آپ کی دشمن سے تنہا مڈ بھیڑ ہو جائے اور آپ کہیں:مسلمانوں کو بلاؤ ، یعنی انہیں مدد کے لیے بلاؤ۔تو دعا یہاں استغاثہ کے معنی میں ہے۔
    دعا کے معانی کی یہ قسم دراصل سوال اور طلب ہی کے قبیل سے ہے۔ یہ الگ قسم نہیں۔


اخلاق سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں

 

جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا، اس معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ہ مسلم ہوں 
اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں ۔ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل شئے اخلاق ہے۔اچھے اور عمدہ اوصاف و ہ کردار ہیں جس کی قوت اور درستی پر قوموں کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔جس معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا، اس میں کبھی اجتماعی رواداری، مساوات،اخوت و باہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا۔ جس ماحول یا معاشرہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتی ہوں اور جہاں شرم و حیاء کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو اُس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ یہ منظر آپ اِس وقت دنیا میں اپنے شرق و غرب میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ عروج و ترقی کہا ں ہے اور ذلت و رسوائی کہاں ہے؟
     اخلاقیات ہی انسان کو جانوروںسے الگ کرتی ہیں۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائیگی۔ انسان کی عقلی قوت جب تک اسکے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے ، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔
     اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیںاور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے ۔
    اسلام میں ایمان اور اخلاق 2 الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں۔یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ہمارے پیارے نبی کریم کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتاب ِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔
    اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ  ( القلم4)۔
    ’’بے شک تم بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہو۔‘‘
    اورایسا کیوں نہ ہو آپ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالک ِ خلق عظیم فرماتے ہیں ۔
    ’’میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘(حاکم ، مستدرک)۔
    یعنی میں اعلیٰ اخلاق کی تمام قدروں کو عملی صورت میں اپنا کر، اپنے اوپر نافذ کر کے تمہارے سامنے رکھنے اور ان کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
    ہمارے آقا و مولا کی پوری زند گی پیکر ِ اخلاق تھی کیونکہ آپ نے قرآنی اخلاقی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کر لیا تھا۔ آپ کا اخلاق قرآن کے احکام و ارشادات کا آ ئینہ تھا، قرآن کا کوئی خلق ایسا نہیں ہے جس کو آپ نے اپنی عملی زندگی میں نہ سمو لیا ہو۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ہمیںنصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب21)۔
    ’’بے شک تمہارے لیے اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تکمیل کرنے کیلئے رسول اللہ کی پیروی کرنے میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
    ایمان و عبادت کی درستگی کی عملی نشانی صحت اخلاق ہے بلکہ عبادات و تعلیمات اسلامی کا لب لباب اخلاق کو سنوارنا اور نکھارنا ہے جس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے۔
 اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔
    ’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو۔‘‘
    ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔
    ’’تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔‘‘
    اخلاق کیا ہیں؟ نبی کریم نے اخلاق کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا۔
    ’’اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم جواب میں اس کو دعا دو،یعنی گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ دعا اور اچھے الفاظ سے دو۔ جو تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو، جو تمہاری بد خوئی کرے تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو، جو تم پر زیادتی کرے تم اسے معاف کر دو۔‘‘
    یہ ہمارے لیے اخلاق کی تربیت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے توتم اس کے جواب میں اسے دعا دو تو ایک دن اسے خود بخود شرم آئے گی کہ میں تو اسے گالی دیتا ہوں اور وہ مجھے جواب میں دعا دیتا ہے تو مجھے شرم آنی چاہئے کیوں نہ میں بھی اسے دعا دوں اور اس کی تعریف کروں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے جو میری گالی کے جواب میں دعا دیتا ہے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتا۔ اگر کوئی تمہیں برا کہتا ہے اور تم اسے اچھا کہتے ہو تو ایک دن وہ تمہیں اچھا کہنے لگ جائے گا۔اگر کوئی تم سے زیادتی کرتا ہے اور تم اسے معاف کر دیتے ہو تو اس کے دل میں تمہاری قدر اور خلوص بڑھے گا۔ اگر کوئی تمہارے حقوق تلف کرتا ہے تو تم اس کے حقوق کے محافظ بن جاؤ تو یقینا ایک دن ضرور اسے بھی شرم آئے ہی جائے گی اور اس طرح معاشرہ خود بخود سدھرتا چلا جائے گا۔
    بد قسمتی سے آج کے ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں پائے جاتے جس کی وجہ نبی کریم کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسواء اور زوال پذیر ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ وہ دین جس کی حقیقی پہچان اخلاقیات کا عظیم باب تھا اور جس کی تکمیل کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا، آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات اور معاملات میں اس پستی تک گر چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے، جیل خانہ جات میں جگہ تنگ پڑرہی ہے، گلی گلی، محلہ محلہ ، جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔ منشیا ت کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، طمع، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض اور بیماری ہے جو ہم میں نہیں ۔ خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے یہاں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہر ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔
    ایسے غلیظ اخلاق و اطوار والی قوم کا مسلمان کہلوانا تو دور کی بات ، ہمارے اسلاف کہتے ہیں کہ ایسے میں اسلام ، اللہ و رسول کا نام پاک بھی اپنی ناپاک زبانوں سے لینے کی جسارت نہ کرو اس لیے کہ تم ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہو۔
گر نہ داری از محمد رنگ و بو
از زبان خود میسا لا نام او
    یعنی اگر تمہاری سیرت و کردار ، اخلاق و اطوار اپنے نبی کریم کے رنگ و بو سے بہرہ ور نہیں ، یا تم سے آپ کے اخلاق حسنہ کی بو نہیں آتی تو تمہیں قطعاً یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنی ناپاک زبان سے آپ کا نام پاک لینے کی جسارت کرو مسلمان کہلوانا تو بہت دور کی بات۔
    کیونکہ ایسے گھٹیا اوصاف والی قوم کا مسلمان کہلوانا عظیم اخلاق والے دین حق اسلام کو بدنام کرنے والی بات ہے۔ آج دنیا میں اسلام بدنام ہے اور اس کا حقیقی چہرہ مسخ ہو چکا ہے ، یہ کسی اور نے نہیں خود ہم نے کیاہے۔آج دنیا اس پر طنزو تنقید اوربھبتیاں کسنے لگی ہے ، آج دنیا کے ہر کونے سے انگلی ہمارے عظمت والے دین پر اٹھتی ہے اس پر نکتہ چینیاں کی جاتیں، اس پر ہنسی ، تضحیک اور اس کے خاکے تراشے جاتے ہیں اور باطل اسے دنیا سے ناپید کرنے کی کشمکش میں ہے ۔ آج دنیا اسے بدخلقی، ناانصافی، ظلم و زیادتی کا دین تصور کرتی ہے صرف ہمارے اوصاف کی وجہ سے۔ صحیح و اکمل دین کی دنیا میں ذلت و رسوائی کا سبب ہم ہیں، ہمارے سیاہ اوصاف ہیں، ہمارے غلیظ اخلاق ہیں، ہمارے گندے اطوارہیں کیونکہ ہم خود اس کا حقیقی چہرہ مسخ کر کے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر دنیا کو دکھا رہے ہیں جس کے سبب دنیا اسلام پر طنز اور نکتہ چینیاں کرتی ہے ۔ مجھے یہاں ایک ہندو شاعر کی اسلام پر طنز و تنقید یاد آرہی ہے جو چند دن پہلے میری نظر سے گذری۔ ہندو شاعر لکھتا ہے:
جام پے جام پیا اور مسلمان رہے
جس نے پالا پیمبرؐ کو وہ رہا کافر
یہی دین ہے تو اس دین سے توبہ ماتھور
شک پیمبرؐ پہ کیا اور مسلمان رہے
     یہ اس شاعر نے ہمارے اخلاقی رویہ ہی کی عکاسی ہے ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو غلاظت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں ، گمراہی و ضلالت کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں مگر ہم ان کو مسلمان کہتے ہیں۔ ہم میں ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو حضورسید عالم کے محسنین، آپ کی پرورش کرنے والے آپ کے شفیق دادا اور چچاعبد المطلب اور ابو طالب کو تو کافر گردانتے ہیں کہ انہوں نے آپ کا کلمہ نہیں پڑھا اور یزیدیوں کو مسلمان کہتے ہیں جنہوں نے آپ کی آل پاک پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ہم میں پیغمبر پر نکتہ چینیاں کرنے والے اور عیبوں کا سراغ لگانے والے گروہ بھی موجود ہیں مگر ہم ان کو بھی مسلمان کہتے ہیں۔
    حکیم الامت ، ترجمان حقیقت حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بد اخلاق امت دنیا میں پیغمبر کی رسوائی کو سبب بنی ہوئی ہے۔
ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
    یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔ معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کا ہم میں فقدان ہے۔
    کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی اجتماہی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر شخص کف افسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اخلاقی بگاڑ اور رواداری و معاملات کی بیخ کنی جو کسی بھی اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ شائد ہی دنیا کے کسی دوسرے معاشرہ میں پائی جاتی ہو۔

الدعاء مخ العبادة"


آدمی سجدہ کی

حالت میں اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے چنانچہ حالت سجدہ میں بہت کثرت سے دعائیں کیا کرو

     «  کسی ناپسندیدہ جگہ پہنچادینا: دعا کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو ایسی منزل پر اتار دیا جائے جو اسے پسند نہ ہو۔یا کسی ایسے حادثہ سے دوچار کردیا جائے جو اس کے لیے غیر متوقع اور ناگوار ہو۔ علمائے لغت کے ایک گروہ نے دعا کے یہ معانی بیان کیے ہیں۔
    اس کی مثال یوں ہے کہ عرب کہتے ہیں:دَعَاہُ اللّٰہُ بِمَا یَکْرَہُ۔ یعنی’’ اللہ نے اس کو ایسی جگہ پہنچا دیا جسے وہ ناپسند کرتا تھا‘‘۔اس کی تائیدمیں اہل علم ایک شعر بھی پیش کرتے ہیں:
دَعَاکَ اللّٰہُ مِنْ قَیْسٍ بِأَفْعَی 
 إِذَا نَامَ الْعُیُونُ سَرَتْ عَلَیْکَا
( اللہ تعالی تجھ پر بنو قیس میں سے ایک سانپ مسلط کرے کہ جب لوگ سورہے ہوں تو وہ تجھ پر چڑھ دوڑے)۔
  *دعا کے اصطلاحی معانی:
    امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’اصطلاح میں دعا کا مطلب ہے اللہ کے لیے حد درجہ کی ذلت ، محتاجی اورکمزوری کا اظہار کرنا ۔‘‘
    علامہ مناوی فرماتے ہیں:
    ’’دعا کا اصطلاحی معنی ہے : محتاجی کی زبان کی اضطرار کی حالت سے تشریح کرنا۔‘‘       
    دعا کی فضیلت واہمیت*:
    دعا کی فضیلت اہمیت اور مشروعیت وترغیب کے بارے میں سب سے پہلے ہم اللہ رب العزت کی مقدس کتاب میں وارد ہونے والی آیات کریمہ کا ذکر کریں گے ۔پھراس سلسلہ میں سنت مطہرہ سے صحیح احادیث بیان کریںگے اوربعد میں اس تعلق سے چند ضعیف روایات کا ذکر کریں گے تاکہ قارئین کرام صحیح چیز کو اختیار کرسکیں اور غیر صحیح سے اجتناب ان کے لیے آسان رہے۔
    دعا کی فضیلت و ترغیب میں وارد آیات کریمہ:
    ٭ میں اپنے بندوں سے بے حدقریب ہوں:
    ’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں توکہہ دیجیے میں قریب ہی ہوں ۔ہر پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں۔‘‘(البقرۃ186)۔
    ٭ اللہ سے اس کا فضل مانگو:
    ’’ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقینااللہ ہر چیزکا علم رکھتا ہے۔‘‘ (النساء32)۔
    ٭ اللہ کو اخلاص کے ساتھ پکارو:
    ’’اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے اسی کو پکارو، تمہیں اللہ نے جیسے شروع میں پیدا فرمایا اسی طرح تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے۔‘‘(الأعراف29)۔
    ٭ چپکے چپکے اسی سے دعائیں مانگو:
    ’’ اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اورچپکے چپکے دعا مانگو ، بے شک وہ حد سے گزرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(الأعراف55)۔
    ٭ اسے خوف ورجا کی حالت میں پکارو:
    ’’اسی کو پکارو اس سے ڈرتے ہوئے بھی اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے بھی، یقینا اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب تر ہے۔‘‘(الأعراف56)
    ٭ اس کے خوبصورت ناموں سے اسے پکارو:
    ’’اسے ﷲ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر ، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔‘‘(الإسراء110)۔
    ٭ مجبور وبے نوا کی فریادیں اس کے سوا کون سنتا ہے؟
    ’’بے کس کی پکار کو جب وہ اس کو پکارے ، کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتاہے۔‘‘(النمل62)۔
    ٭ روزی اللہ ہی سے طلب کرو:
    ’’ پس تم اللہ تعالی ہی سے روزیاں طلب کرواور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو۔‘‘( العنکبوت17)۔
    ٭ اللہ ہی سے فریادیں کرو چاہے کافروں کو برا لگے:
    ’’تم اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کو پکارتے رہو چاہے کافربرا مانیں۔‘‘(غافر14)۔
    ٭ دعا عبادت ہے اور دعا سے گریز تکبر ہے:
    ’’تمہارے رب نے فرمایاہے : مجھ سے دعائیں کرو ، میں تمہار ی دعاؤںکو قبول کروں گا۔یقین مانو جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ جلد ہی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیںگے۔‘‘(غافر60)۔
    ٭ وہی زندہ و لاشریک ہے اسی سے مانگو:
    ’’ و ہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، پس تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔‘‘(غافر65)۔
    دعا کی فضیلت میں وارد 10 صحیح احادیث:
*   دعا عین عبادت ہے:
    سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:دعا ہی عبادت ہے۔
   *جو اللہ سے نہ مانگے اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے:
    سیدنا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا:جو اللہ سے مانگنا چھوڑ دے ،اللہ اس پر ناراض ہوجاتا ہے۔
  *  اللہ تعالیٰ کو دعا سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں:
    سیدنا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ قابل عزت نہیں۔
    *   آدم کے بیٹے مجھے کوئی پروا نہیں:
    سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم اللہ رب العزت سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعاکرتا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا ، میں تمہیں معاف کرتا رہوں گا چاہے تم سے کچھ بھی سر زد ہوتا رہے۔ابن آدم ! مجھے اس امر کی کوئی پروانہیں کہ اگر تمہارے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں ، پھرتم مجھ سے بخشش طلب کرو تو میں تمہیں بخش دوں گااور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں،ابن آدم !اگرتُو گناہوں سے پوری زمین بھر کر لے آئے لیکن تمہارے دامن پر میرے ساتھ شرک کا داغ نہ ہو تو میں اتنی ہی مغفرت لے کر آؤں گا اور تمہیں معاف کردوں گا۔
  *   تم سب میرے محتاج ہو، میری بادشاہت بلا حدود ہے:
    سیدنا ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتاہے:اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں ہی کھلاؤں، پس تم سب مجھی سے کھانا مانگوتاکہ میں تمہیں کھلاؤں۔
      اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں ہی پہنا دوں، سو تم مجھ ہی سے لباس طلب کرو تاکہ میں تمہیں پہنا دوں ۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے ، تمہارے جن اور انسان سب ایک ہی میدان میں جمع ہو جائیں اور سب مل کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر سوال کرنے والے کو اس کی طلب کے مطابق عطا کردوں تو میرے خزانے میں سے اتنی بھی کمی نہیں ہو گی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے اس کے پانی میں کمی ہوتی ہے۔
   *   کوئی میری طرف آکر تودیکھے:
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:اللہ عز وجل فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہی اس سے معاملہ کرتا ہوں ۔ وہ جب مجھے پکارتا ہے تو میںاسکے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے نفس میں مجھے یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتاہوں ، اگر وہ مجھے کسی مجلس میں یادکرے تو میں بھی اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں، اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف 2ہاتھ بڑھتا ہوں، اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کرآتا ہوں۔
  * دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے:
    *  سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:تقدیر الہٰی کو سوائے دعا کے کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور سوائے نیکی کے کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرسکتی(جامع ترمذی:حسنہ الشیخ البانی)۔
     *  سیدنا ابوہریرہ ؓیا سیدنا جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ہر دن اوررات میں کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے ، ان میں سے ہر ایک شخص کی ایک دعا ضرور ایسی ہوتی ہے جو قبول کی جاتی ہے(احمد)۔
  *  3 میں سے کم از کم ایک فائدہ:
    سیدنا ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ نے فرمایا: کوئی بھی مسلمان جب کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ اور قطع رحمی کی بات نہ ہو تو ایسے شخص کو 3میں سے ایک چیز ضرور عطا کردی جاتی ہے : یا تو اس کی دعا فوری طور پر قبول کرلی جاتی ہے، یا اس دعا کو آخرت کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے ، یا اس دعا کے باعث کسی ایسی ہی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم تو پھر بہت کثرت سے دعا کریں گے؟ اللہ کے رسول نے فرمایا: اللہ (کے ہاں دینے کے لیے ) بہت کچھ ہے( احمد)۔
*  حالت سجدہ میں دعا:
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:آدمی کو اپنے رب کی سب سے زیادہ قربت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے چنانچہ حالت سجدہ میں بہت کثرت سے دعائیں کیا کرو۔

معاشرے کی تباہی ، تاریخ کے تناظر میں

 


جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے

انسان نے یقیناہر دور میں کوشش کی ہے کہ اس کی اجتماعی معاشرتی زندگی مستحکم رہے۔ جب حیاتِ انسانی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ہمیں اِس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے۔ تاریخ انسانی نے مختلف معاشرے تشکیل دیئے اور گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا جب وہ اجتماعی طور پر فطرت کے خلاف چلیں ، جب وہ قانون قدرت کو توڑ کر اس کی نافرمان و گستاخ بنی اور خدا کے متعین کردہ اصولوں سے انحراف کیا ۔ بنی نوع انسان کو انفرادی بدعملی کی سزا دنیا میں نہیں ملتی اس کا حساب کتاب آخرت میں ہے مگر جب قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزاء دنیا ہی میں مل جایا کرتی ہے۔ جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے بھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر کر گئی تھیں۔ 
 
   کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا جنہیں ہم نے زمین میں ایسا مضبوط و پائیدار اقتدار دیا تھا کہ ایسا اقتدار تمہیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر لگا تار برسنے والی بارش بھیجی اور ہم نے ان (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں پھر (اتنی پرعیش و عشرت والی زندگی دینے کے باوجود) ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری امتوں کو پیدا کیا(الانعام 6)۔
مزید پڑھیں:وہ جن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں!
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو ان کے عمل کی سزا دیتے ہیں(یونس 13)۔
t   اور ہم نے کوئی بھی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس بناء پرکہ ان کے پاس ہماری ایک روشن کتاب تھی (جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی ،سو ہم نے ان کو انجام تک پہنچا دیا)( الحجر 4)۔
t    اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے، کیا آپ ان میں سے کسی کا وجود بھی باقی دیکھتے ہیں یا کسی کی کوئی آہٹ بھی سنتے ہیں (مریم98 ) 
 
   پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ اُن کے دل اِن باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں( یعنی یہ لوگ اپنی آنکھوں سے تاریخ پر نظر دوڑا کر عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلو ںکا کیا انجام ہوا ہم سے غافل ہونے کے سبب) بلکہ ان کے دل بھی اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں( مردہ حالت میں جنہیں کوئی سوجھ بوجھ نہیں)(الحج46,45)۔
مزید پڑھیں:نبی مکرم کے مبارک ہاتھوں سے بسنے والے گھر
ہم تاریخ کے سبھی ادوار کھنگال کراس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی انسان کی معاشرتی زندگی میں بگاڑ غالب رہا اور اصلاح کے بہت کم آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی مجموعی بگاڑ کے نتیجہ میں قومیں زوال پذیر ہوئیں اور اپنے انجام کو پہنچیں۔
 
جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت قوموں کے عروج وزوال اور تباہی و بربادی کے قوانین کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو قوانین یہود و نصاریٰ کیلئے ہیں وہی امتِ مسلمہ کیلئے ہیں، جو اصول اہل باطل کیلئے ہیں وہی اہل حق کیلئے ہیں، جو ضابطے اہل کفر کیلئے ہیں وہی اہل ایمان کیلئے ہیں۔ قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین اٹل ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی ہے۔ان کو ’’سنۃ اللہ ‘‘ کہا گیا ہے۔ 
سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوا مِنْ قَبْلُ،  وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔
یہی اللہ کی سنت( اللہ کریم کی عادت ، اللہ کا قانون، اللہ کا اصول و ضابطہ اور طور طریقہ رہا) ان لوگوں میں جو تم سے پہلے گزر چکے( اور یہی تمہارے لیے ہیں) ،تم اللہ کے قانون و ضابطے میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں پاؤ گے۔(الاحزاب 62)۔
 
قرآن کا پیمانہ ہمارے سامنے ہیـ۔ اس سے ہم خود کو پرکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ اس وقت ملت اسلامیہ کئی بڑے بڑے فتنوں اور صدموں میں گھری ہے۔ ہر بڑا فتنہ چاہے وہ ملکی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر ،سقوطِ بغدادہو یا سقوطِ اندلس یا خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ ہویامسئلہ فلسطین اور کشمیرکا، مشرقی تیمور ہو یاچیچنیا،بوسینیا،کوسوؤ، سرب اور برمی مسلمانوں کی نسل کشی ہو یا افغانستان و عراق، شام، لیبیا کی مسماری یا ہندوستان میں اٹھتے مسلم کش فسادات ہوں،یہ سب امتِ مسلمہ کوبیدار کرنے، آزمائش، پَرکھانے اورانھیں خوابِ غفلت سے جگانے کیلئے رونما ہورہے ہیں کہ یہ سب دیکھ کے ان کا خون کھولتا ہے یا نہیں؟ ان کا سویا ضمیر جاگتا ہے یا نہیں؟ ان کی ٹوٹی و مری ہوئی غیرت جاگتی ہے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:اللہ تعالیٰ اور رسول سے محبت کا ذریعہ ، ذکر ، شکر ، فکر
مگر شایدہم ان سب آزمائشوں میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کے بھی ہمارا خون نہیں کھولا، ہماری مردہ غیرت نہیں جاگی، ہمارے سوئے ضمیر بیدار نہیں ہوئے۔ بغداد جلتا رہا قوم سوئی رہی، کابل اجڑتا رہا قوم مدہوش تھی، عراق برباد ہو گیا قوم بے غیرتی کی چادر اوڑھے رہی، لیبیا پر آگ و آہن کی بارش ہوئی قوم غفلت سے بیدار نہ ہوئی، فلسطین و کشمیر ، برما میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہیـ۔ قوم کی آنکھیں نہیں کھل رہیں۔ ہمارے عظیم جرنیل صلاح الدین ایوبی کی قبر کوتھوڈے مارے گئے اور کہا گیا ۔’’ لو صلاح الدین ہم یہاں تک پہنچ آئے، تم کب تک سوئے رہو گے؟ دراصل یہ صلاح الدین ایوبی ؒ کی قبر کو ٹھوڈا نہیںتھا بلکہ ملت اسلامیہ کے وجود پر ٹھوڈا تھا ۔ہمیں کہا گیا ، ہمیں للکارا گیا کہ لوہم یہاں تک پہنچ آئے تم غفلت سے کب اٹھوگے؟ تمہارے مردہ ضمیر کب جاگیں گے؟ تمہاری خوابدیدہ مردہ روحیں کب بیدار ہوں گی ہم ے مقابلہ کو؟ 
 
مگر افسوس ہم نے دشمن کی للکار پر کان نہیں دھرے۔ہم 313تھے تو زمانے کی کایا پلٹ دی، آج ہم ڈیڑھ ارب ہیں مگر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ بے جان مٹی کا ڈھیرہیں۔ مٹی میں بھی اگر جان ہوتو بڑے بڑے تن آور شجر پیدا کر کے سائباں تو مہیا کرتی ہے ، مگر ہماری پوری ملت اسلامیہ کے وجود کی مٹی اس سے بھی گئی گزری ہے، بالکل مری کھپی اور بے جان ہے کہ کوئی دید ہ ور پیدا نہیں کر پا رہی جو سائبان بن کر امت پر سایہ فگن ہو۔ ہم تعداد میں اربوں مگر بے جان اور مردہ مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں۔ہمارے حکمر ان بے غیرتی و بے حسی کی چادر اوڑھ چکے ہیں۔ ان کی مذہبی حمیت اور غیرت ِدینی دم توڑ چکی ہے ، انہیں دین و ملت کے ساتھ ہونے والی کسی بھی اونچ نیچ پر کوئی دکھ و صدمہ نہیں پہنچتا۔ دشمن کو میر صادق اور میر جعفر بہت سستے داموں مل رہے ہیں۔جہاں بد د یانت حکومتیںہوں، کرپٹ انتظامیہ ، بے ضمیر رہنما، جھگڑالو علماء،فسادی ملا، بے اثر پیر و مشائخ ہوں تو امت کی بیداری و اصلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ چمن کے مالی خود ہی چمن کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور اس کے تنوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔  
مزید پڑھیں:سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت سے انجیل بھی انکاری
آج کس کے گھر لوٹے جا رہے ہیں؟ کس کے وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں؟ آج دنیا میںچار سُو کس کی نسل کشی کی جا رہی ہے؟ آج ہر سو جلی نعشیں، بکھرے لاشے، کٹے اعضاء، بین کرتی مائیں، سسکتی بہنیں، اجڑے سہاگ، بلکتے بے سہارا بچے کس ملت سے وابستہ ہیں؟ آج دنیا میں کونسی قوم ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون کھولا؟ کب بیدار ہو گی یہ سوئی بے جان ملت؟ کب کھولیں گی اس مردہ بے ضمیر امت کی آنکھیں؟ اگر کسی بہت گہری نیند سوئے آدمی کو ٹارچر کریں یا کوئی کیڑامکوڑا بھی ڈس لے تو وہ فوراً بیدار ہو کر ہوشیار ہو جاتا ہے ۔
 
مگر بد نصیب قوم ایسی مدہوش نیند سوئی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ٹارچر پہنچنے پر بھی قوم میں ذرا جنبش نہیں آئی کہ وہ کروٹ ہی بدل لے۔ جیسے کسی مردہ کو جتنا مرضی ٹارچر کرتے رہو اس میں ذرا جنبش نہیں آتی بالکل یہی حال ہمارا ہے ۔ ہم غفلت میں پڑے اتنی گہری نیند سورہے ہیں کہ ہماری ملت کے جسم پر کتنے بڑے بڑے ٹارچر اور زخم آئے مگر ہم میں ذرا حرکت و جنبش نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم بیدار ہونے کیلئے اسرافیل علیہ السلام کے ثور پھونکنے کی آواز کے منتظر ہوں کہ ہمیں اگر ثور کی آواز سنائی دے گئی تو ہم اٹھیں گے اس سے پہلے ہم اٹھنے والے نہیںمگر اس وقت اٹھنا ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہمارے کسی مفاد میں ہو گا۔
 
کتاب رحمت کو آگ لگا کراور پیغمبر رحمت کے خاکے تراش کر کے مسلمانوں کو ذہنی اذیت دی جارہی ہے تب بھی غفلت کی نیند سوئی قوم بیدار نہیں ہو رہی۔ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ، ہماری غیرت دم توڑ چکی۔ اس کی ایک زندہ مثال ابھی کل کی پیش کرتا ہوں کہ وہ کمینہ انسان امریکی جنرل ہوڈ نے گوانتاموبے کے قید خانہ میں مسلمانوں کواذیت دینے کیلئے باتھ روموں میں ٹیشو کی جگہ قرآن مقدس کے اوراق رکھوائے ۔ اس عمل پر تو قرون عالم میں مسلمانوں کو آگ لگ جانی چاہیے تھی اور غفلت سے اٹھ کھڑے ہو کر اس کمینے کو کیفر کردار تک پہنچاتے مگر افسوس کہ اسکے برعکس ہم نے کیا کیا ۔ یہی کمینہ جنرل جب خودکو اسلام کا قلعہ کہنے والے ملک پاکستان آیا تو اُس دور کے حکمرانوں نے اس کے قدموں کے نیچے سرخ قالین بچھا کر اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ یہ اس کی زندہ مثال ہے کہ ہماری غیرت مردہ اور ضمیر دفن ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں:قرآن مجید کی عظیم تر سورت ، الفاتحہ
یہ تمام قرائن و شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے ہرگز راضی نہیں اور اسی وجہ سے امتِ مسلمہ ہر جگہ ذلیل و خوا ر ہو رہی ہے۔جب ہم لمبی لمبی ، گڑ گڑا کر دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں:یا الٰہی ! ہمارا حال دیکھ ،  تو حکم ہوتا ہے تُو اپنا نامہ اعمال دیکھ۔ 
 
دو سر ی قوموں سے نصیحت اور عبرت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے قدرت ایسے ہی عذاب نازل کیا کرتی ہے۔ضروری نہیں کہ آسمان سے پتھر بر سیں یا زمین الٹ جائے اور خوفناک چنگھاڑ سنائی دے۔یہ عذاب کبھی تاتاریوں تو کبھی عیسائیوں، ہلاکو خان، چنگیز خاں ،تیمور خاںکے حملوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور اب امریکہ،ہنداوراسرا ئیل ، طاغوتی و سامراجی قوتوں کے تسلط کی شکل میںہم پر مسلط ہے۔ قدرت اسی طرح ایک غالب طاقت کو دوسری طاقت سے دفع کیا کرتی ہے اور سزا اور عقوبت کیلئے ظالم بادشاہوں کو مسلط کر دیتی ہے۔
 
آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ہمارے کردار یہود و نصاریٰ سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ہم سے تو سِکھ بہتر ہیں جو اپنے گرو کی ایک ایک ادا کو اپنائے ہوئے ہیں، سکھ اس وقت دنیا میں جہاں بھی ہیں، جس عہدہ ، جس منصب پر بھی ہیں وہ اپنے گرو کا نمونہ پیش کرتے ہیں ، وہ دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر پہنچ کر بھی اپنے گرو کی سی داڑھی اور سر پر گرو کی سی پگ رکھنے سے نفرت و ہتک محسوس نہیں کرتے۔
 
ہمارے ہاں مجموعی افراد ملت تو دور کی بات جب ہم برصغیر اور بعض عرب ممالک سے باہر کے مذہبی رہنما، دینی اسکالرز، روحانی پیشوا ، مساجد کے امام و خطیب دیکھیں تو ان کے چہروں پر نبی کریم کی سنت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حال ہے ہمارے مذہبی پیشواؤں کا۔ ہماری قوم کا اجتماعی رنگ و روپ مغرب زدہ ہے، اسلام زدہ نہیں۔ آپ ملک کے جس محکمہ، ادارہ، دفتر، بنک، اسکول ، کالج و یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو مغربی مقلد نظر آئیں گے ۔سب آپ کو مغربی رنگ و روپ میں ڈھلے نظر پڑیں گے۔کلین شیو، پینٹ شرٹ، ٹائی باندھے بظاہر مغربی ، ایمان اور رسول اللہ سے محبت ان کے اندر ایک بند کونے میں چھپی ہوتی ہے کہ بظاہر کوئی دیکھ کر نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہیں، جبکہ رسول اللہ سے وابستگی و محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا آپ کو دورسے دیکھ کر جان جائے کہ یہ محمد کریم کا غلام ہے ۔
لہو و لعب میں جیتیں تو سر سجدے میں ہیں رکھتے
دکھائیں زمانے کو ہم بھی کہیں سے ہیں مسلم لگتے
واضح میں مغرب کی نمو، لباس سے بھی ہیں مغربی جھلکتے
پیرو کہاں سے لگتے آپ کے یہ مغرب و ہنود کے چہکتے
دیا آپ نے درس محبت و الفت و اخوت و وفا کا
سمجھا تیری قوم نے غداری و مکاری و عیاری و دغا کا
مزید پڑھیں:حرم مکی شریف کی حد ، اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ
ہم میںمجموعی طور پر اپنے آقا کریم کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا کریم کے کون سے اخلاق و اطوار باقی ہیں؟ ہم میں آپ کا کونسا کردار پایا جاتا ہے؟ ہم آپ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب…یقینا کوئی نہیں ،مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، بیہودگی ہے،وہ کونسے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ وہ کونسی بد خلقیات ہیں جن کی ہم میں کثرت نہیں؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارتگری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم معاشرہ میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ان سوالات کا جواب یقینا ہاں میں ملے گا۔
 
یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ برا ہے ہمارے معاشرہ میں مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ اچھے مسلمان تو بہت دور کی بات ہم تو اچھے انسان بھی نہیں ۔ہماری مسجدوں سے جوتے اٹھائے جاتے ہیں، مسجدوں کے گندے لوٹے بھی لوگوں کی دست ریزی سے محفوظ نہیں، مسجدوں اور پبلک مقامات کی لیٹرینوں میں کیا کیا بیہودہ اخلاق  سے گری باتیں لکھی ہوتی  ہیں، گلی میں چلتے موبائل فون جھپٹ کر لے جاتے ہیں، ہمارے ہاں گلی بازاروں میں واٹر کولر نصب ہوںتو گلاس کو زنجیر سے باندھ کے رکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہے ہمارے کردار کی جھلک۔ ہمارے معاشرہ میں انسان نما جانور بستے ہیں، جنہیں نہ کوئی تہذیب ہے نہ کوئی شعور۔ 
منزل و مقصود قرآں دیگر است
رسم و آئیں مسلماں دیگر است
در دل او آتش سو زندہ نیست
مصطفی در سینہ او زندہ نیست
مزید پڑھیں:دعا عبادت کا جوہر
قرآن کریم کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے ، ہماری منزل اور ہمارا مقصود کچھ اور ہے۔ہم کچھ اور کے طلبگار ہیں، ہم قرآن بھی رکھنا چاہتے ہیں اور باطل اطوار و روایات بھی۔ہم سنت بھی رکھنا چاہتے ہیں اور غلط خرافات و کردار بھی۔ قرآن کے احکام، اصول و ضوابط کچھ اور ہیںجبکہ ہمارے رسوم، ہمارے اطوار، ہماری روایات کچھ اور ہیں ۔ ہم قرآن کریم اور اس کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ مسلمان کے دل میں جلا دینے والی وہ آگ نہیں جو ہر باطل کو جلا دے۔ حضرت محمد مصطفی ان کے سینوں میں زندہ نہیں ، ان کے دلوں میں حضور اکرم کی محبت و الفت باقی نہیں۔ 

Wednesday, January 21, 2015

ISLAMIC LECTURE

AUDIO LECTUREThe Character of Muhammad
Sheikh Yusuf EstesHear it!
VIDEO LECTUREMuhammad A to Z
Sheikh Yusuf EstesWatch it!
PDF FILEMuhammad A to Z
Sheikh Yusuf EstesDownload it!
WALL PAPERChoose your screen resolution to download this fabulous wallpaper

Download >
800 x 600    1024 x 768

1280x1024